PDA

View Full Version : تحریری کہانیاں



Degrian
05-08-2011, 12:14 PM
تحریر : عین لام میم
دَھوانے سے تربوز تک

گئے زمانوں کی بات ہے کہ گرمیوں کے آتے ہی بازاروں میں ریڑھیوں، ٹھیلوں اور تھڑوں پہ بڑے بڑے، ہرے ہرے تربوزوں کی بہار آ جاتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے "لنڈا بازار" لگ گیا ہے تربوزوں کا۔ ہر طرف " جیہڑا پٹو لال اے" کی آواز آتی تھی اور کسی ایک کی بات کا بھی یقین نہیں آتا تھا! خود جا کے تین چار تربوز اٹھا کے، دیکھ بھال کے “ٹک” لگا کے "لال پن" چیک کیا جاتا تھا اور پھر سودا مکایا جاتا تھا کہ یہ لو دو "دھوانوں" کے دس روپے اور وہ چھوٹا والا "چونگے" میں دو۔۔۔۔ یہ بات کوئی سن صفر کے زمانے کی نہیں ہے، مجھے بھی یاد ہے کہ دس کے دو تو مل ہی جایا کرتے تھے۔ بچپن میں مجھے کبھی بھی تربوز زیادہ پسند نہیں آتے تھے، سارے ہاتھ گیلے، بعد میں چِپ چِپ، جہاں کھاؤ وہ جگہ بھی گیلی اور مکھیوں کا میلہ الگ۔۔۔۔ اوپر سے اتنی بڑی بڑی کاش کاٹ کر دیتے تھے کہ کھاؤ تو گالوں تک منہ دھونا پڑے، ساتھ ساتھ یہ بھی سنتے جاؤ کہ "خبردار جو اب پانی پیا تو۔۔۔ ہیضہ ہو جائے گا، یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا"۔ کیوبز کاٹ کے کانٹوں سے کھانے کا فیشن ذرا لیٹ آیا تھا۔ بازاروں میں جا بجا مکھیوں کی کالونیوں کے سائے میں چھلکوں اور ادھ کھائے تربوزوں کا ڈھیر۔ چلتے چلتے پیاس لگی، ایک دھوانا لیا اور "گوڈے پہ رکھ کُہنی ماری"، ہاتھ سے کھایا، جتنا کھایا ٹھیک باقی وہیں چھوڑ چھاڑ، یہ جا وہ جا۔

اب ذرا نئے زمانے کی بات کرتے ہیں: جمعے کا دن لیکن بازار میں ٹھیلوں پہ اکا دکا ہی نظر آ رہے ہیں، چلو جی، ہو سکتا ہے موسم نہیں آیا ابھی۔ یہ رہے، واہ! "جی کس طرح دے رہے ہیں بھائی صاحب"؟

آپ بتائیے کون سا تول دیں؟

یہ والا

ہممم۔۔۔۔ پونے چار کلو کا ہے، ڈھائی سو ہو گئے

ہائیں

چلیں آپ دو سو چالیس دے دیں

نہیں نہیں، یہ تو بہت زیادہ ہیں۔ یہ ذرا چھوٹے والا تول دیں

ہممم،۔۔۔ اس کے آپ ایک سو تیس دے دیں

یار انڈے سے تھوڑا بڑا ہی تو ہے۔۔۔۔۔ خیر! یہ لو

بھائی صاحب! لال کی گارنٹی ہے۔ یہ دیکھیں

یہ تھا ایک دوکاندار کے ساتھ مکالمہ برائے بازیابئ یک عدد تربوزاں بقیمتِ ارزاں

اب کون دو دو سو کے تربوز گوڈے پہ رکھ کُہنی مار کے پٹے گا؟

کہاں تو نہر پہ یار دوستوں کے ساتھ جا کے تقریباً مفت کی "دھوانا پارٹی" ہو جاتی تھی۔۔۔ اب کون ایک ہزار روپے کے چار خرید کر انہیں نہر کے پانی میں لگائے گا؟

اب تو ڈاؤلینس میں ٹھنڈے کئے جائیں گے، کیونکہ ڈاؤلینس ریلائبل ہے

سنتے تھے کہ باہر کے ملکوں میں آم کی ایک ایک "کاش" ڈالروں میں بِکتی ہے۔۔۔۔ ان کا تو پتا نہیں، ہمارے تربوز ضرور اب "پھاڑیوں" کے حساب سے بِکا کریں گے۔ دس روپے کی تو وہ اوپر والی "ٹک زدہ" تکونی کاش ملا کرے گی۔ یعنی کہ اب "دھوانا" ایک تعلیم یافتہ، مہنگا اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ والا فروٹ بن گیا ہے، اب "دَھوانا واقعی تربوز" بن گیا ہے.

Degrian
05-08-2011, 12:22 PM
میرے وطن کے لوگو! سوچو

میں ایک مصوم سی نازک کلی تھی جو سرسبز پتیوں میں محوِ خواب تھی جس کی آنکھیں خواب بُنتی تھیں اُس کی پنکھڑیوں جیسی پلکیں ایک دوسرے سے پیوستہ تھیں اُس نے جانا ہی نہیں کہ اُس کے خوابوں سے باہر ایک دنیا ایسی بھی بستی ہے جہاں سُکھ کے داعی دُکھ ہی دُکھ بنتے ہیں امن کے شیدائی امن کی رِدا تار تار کرتے ہیں عافیت کے رکھوالے عافیہ کو داغدار کرتے ہیں ہاں میں ہی وہ لڑکی ہوں عافیہ ہوں میں، جس کو چھیاسی برس کی سزا ہوئی ہے کون وکیل ہے میرا، کون میرا مقدمہ لڑے گا؟ کشتیِ حیات کا سفینہ کب پار لگے گا؟ نا اُمیدیوں کے تھپیڑے بھلا مصائب سے مقابل کون ہو گا؟ ماہ عالم، سحاب، گلاب، سب جیسے سیاہ پوش ہیں ستارے خاموش، ہائے کیا ستم ہے، سب چشم پوش ہیں اس لڑکی کی سزا تو اُس دن ہی شروع ہو گئی تھی جس دن اُس نے کلیوں میں خُوشبو رکھی تھی آنکھوں میں اُڑان سجائی تھی ہاتھ میں ڈگری تھامی تھی میری سزا تو اُسی دن شروع ہو گئی تھی جس دن مسلمان غداروں نے وردیاں پہنی تھیں ہاں وہی عافیہ ہوں، حکمرانوں نے جسے بار بار بیچا میں آج غم زدہ ہوں اور سوچ رہی ہوں یہ کونسا ملک ہے لوگو؟ میرا کونسا ملک ہے لوگو؟ میری بےبسی، کس کے دل میں سر سبز رہے گی حکمرانوں کی بُزدلی، کس کے دل میں تازہ رہے گی کون سمجھے گا میری بات کو جو وقت کو رات سمجھ کر سو گیا سمجھو وہ مر گیا میرے وطن کے لوگو! سوچو آج کون مر گیا؟ا

Degrian
05-11-2011, 07:13 PM
اشفاق احمد کی حکمت کی باتیں

”ہمارے بابا سائیں نور والے فرماتے ہیں کہ اللہ کی آواز سننے کی پریکٹس کرنی چاہئے، جو شخض اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملا لیتا ہے، اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی نے بابا جی سے پوچھا کہ ”اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملانا بھلا کیسے ممکن ہے؟“ تو جواب ملا کہ ”انار کلی بازار جاؤ، جس وقت وہاں خوب رش ہو اس وقت جیب سے ایک روپے کا بڑا سکہ (جسے اس زمانے میں ٹھیپہ کہا جاتا تھا) نکالو اور اسے ہوا میں اچھال کر زمین پر گراؤ۔ جونہی سکہ زمین پر گرے گا، تم دیکھنا کہ اس کی چھن کی آواز سے پاس سے گزرنے والے تمام لوگ متوجہ ہوں گے اور پلٹ کر زمین کی طرف دیکھیں گے، کیوں؟ اس لئے کہ ان سب کے دل اس سکے کی چھن کی آواز کے ساتھ ”ٹیون اپ“ ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ یا تو تم بھی اپنا دل اس سکے کی آواز کے ساتھ ”ٹیون اپ“ کر لو یا پھر اپنے خدا کی آواز کے ساتھ ملا لو“

بابا جی کا بیان ختم ہوا تو نوجوانوں کے گروہ نے ان کو گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ کسی نے پوچھا ” سر! ہمیں سمجھائیں کہ ہم کیسے اپنا دل خدا کے ساتھ ”ٹیون اپ“ کریں کیونکہ ہمیں یہ کام نہیں آتا؟“ اشفاق صاحب نے اس بات کا بھی بے حد خوبصورت جواب دیا، فرمانے لگے”یار ایک بات تو بتاؤ، تم سب جوان لوگ ہو، جب تمہیں کوئی لڑکی پسند آ جائے تو تم کیا کرتے ہو؟ کیا اس وقت تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے؟ نہیں، اس وقت تمہیں سارے آئیڈیاز خود ہی سوجھتے ہیں، ان سب باتوں کے لئے تمہیں کسی گائڈینس کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس میں تمہاری اپنی مرضی شامل ہوتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب خدا کی بات آتی ہے تو تمہیں وہاں رہنمائی بھی چاہئے اور تمہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ خدا کے ساتھ اپنے آپ کو” ٹیون اپ “کیسے کرنا ہے؟“

Degrian
05-11-2011, 07:21 PM
تحریر: شوکت علی مظفر
ماں جی کی زنبیل

عمرو عیار سے ہمارا واسطہ چوتھی جماعت میں ہی پڑ گیا تھا۔ اُس کے پاس زنبیل دیکھ کر ہم بھی سوچتے کسی طرح ہمارا بستہ بھی زنبیل کا روپ دھار لے اور ہم جو چیز چاہیے ہو ہاتھ ڈال کر نکال لیا کریں۔ بچپن کی خواہش تھی اُدھوری رہ گئی۔ نہ زنبیل دیکھی نہ عمرو عیار سے آٹو گراف لے سکے۔ البتہ کہیں سے ماں جی کے ہتّھے یہ زنبیل لگ گئی۔ ماں جی پیر بازار سے واپس آئیں تو ایک جہازی سائز کا پرس ان کے پاس تھا۔

”اس کا فائدہ؟“ میں نے ایک نظر بیگ پر ڈالی۔

”فائدہ پوچھنے کا فائدہ؟“ ماں نے بیگ کو دیوار کی کیل سے ٹانگتے ہوئے کہا۔

میں خاموش ہو گیا اور پھر کچھ ہی دنوں میں اس فرنگی چمکدار شولڈر بیگ کے فوائد نمایاں ہونا شروع ہو گئے، کیونکہ اس کا پیٹ پھول چکا تھا۔ ایک دن بہن آئیں تو بھانجے کی بیماری کا بتایا۔ ساتھ ہی یہ بھی معلومات دیں کہ کئی ڈاکٹر بدل لیے مگر آرام نہیں آ رہا۔ ماں جی نے آرام سے اپنا بیگ کیل سے اُتارا، اس میں سے ایک تھیلی برآمد کی اور ایک خوراک اپنے نواسے یعنی ہمارے بھانجے کو کھلا دی۔ شام تک اسی بھانجے نے اپنی شرارتوں سے ناک میں دَم کر دیا۔

کچھ دن بعد والد صاحب نے عمرہ کی تیاری کی غرض سے اپنا سامان کھنگال ڈالا مگر پاسپورٹ غائب تھا۔ ماں جی سے پوچھا، تو امی نے چھوٹی بہن زینب سے بیگ لانے کو کہا اور پتہ نہیں اس بیگ کے کس خانے سے پاسپورٹ نکال کر ابو کے ہاتھ پر دھر دیا۔

ایک محلے دار خاتون آئی ہوئی تھیں کہ مُردے کو نہلانے کے لیے بیری کے پتے نہیں مل رہے تھے، ماں جی نے بیگ اُتارا اور بیری کے پتے دے دیئے۔ اُس دن ہم نے یقین کرلیا ہو نہ ہو یہ جہازی بیگ عمرو عیار کی "زنبیل" ہے جس میں بیری کے درخت بھی اُگے ہوئے ہیں، میڈیکل اسٹور کھلا ہوا ہے، پاسپورٹ آفس بنا ہوا ہے بلکہ میٹرک بورڈ آفس بھی کیونکہ بھائی کے گمشدہ تعلیمی کاغذات یہیں سے برآمد ہوئے تھے۔

اَڑوس پڑوس کی عورتیں ڈاکٹروں سے تنگ آ جائیں تو والدہ سے دوا لینے آ جاتی ہیں اور معلوم نہیں ماں کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ کس دوا کی ضرورت ہے مگر ہمیں یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ یہ دوا ماں جی کی زنبیل میں موجود بھی ہے جسے وہ مسکراتے ہوئے برآمد کرتیں اور اگلے دن وہ خاتون ہشاش بشاش ہمارے ہی گھر میں چائے پیتی نظر آتی ہیں۔ ماں جی اگر ایڈوانس ہوتیں تو آج زبیدہ آپا جیسی عورتیں ان کے سامنے "پانی" بھرتی نظر آتیں۔ کیونکہ ماں جی کے پاس زنبیل جو تھی جس میں دنیا بھر کا خزانہ پایا جاتا تھا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ہماری شادی کی بات طے کر کے آئی تھیں تو ہمیں خوشخبری سناتے ہوئے زیوارت کے باکس زنبیل سے نکال کر ہمیں دکھانے لگیں۔




"ہم سب چور ہیں؟" سے اقتباس